کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 88
اور تجارت سے فارغ ہو کر فورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کرمکہ واپس آگئے۔ ابوطالب کو اب یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ کہیں یہودی آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں اس لیے وہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خاص نگرانی میں رکھنے لگے۔ ابو طالب کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ میرا یہ بھتیجا مستقبل میں عظیم رتبے پر فائز ہونے والا ہے مگر انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ شان اور رتبہ کس نوعیت کا ہو گا؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ دادا کے دین کے برعکس کوئی دین لے کر آئیں گے؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے باطل معبودوں کا ٹھٹھا اڑائیں گے اور ان کے پتھر کے بنے ہوئے بتوں کی توہین کریں گے؟
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین نصاریٰ کی دعوت دیں گے اور جزیرۂ عرب میں اس کی تعلیمات کا احیاء کریں گے؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت موسیٰ علیہ السلام والی ہو گی اور آپ حقیقی تورات کی اتباع کریں گے جسے اللہ عزوجل نے آسمان سے اتارا تھا؟ یا ان سب سے بڑھ کر آپ اپنے دادا ابراہیم علیہ السلام کے دین کی تجدید کا فریضہ انجام دیں گے جو خالص توحید کی دعوت تھی اور وہی اصل دین حنیف تھا۔
شام کے سفر سے واپس آتے ہوئے ابو طالب کے ذہن میں یہ خیالات گردش کر رہے تھے جبکہ انھوں نے اپنے بھتیجے کو اپنی گود میں لٹایا ہوا تھا۔
ابو طالب انھی تفکرات میں گھرے ہوئے قافلے کے ساتھ چلے آ رہے تھے کہ اچانک پانی کا چشمہ سامنے آ گیا۔ ابو طالب سواری سے اترے، پانی پیا، اپنے اونٹ کو بھی پلایا اور ضرورت کے مطابق مشکیزوں میں بھی بھر لیا۔ پھر اسی چشمے کے پاس درختوں تلے کچھ دیر آرام کیا۔ پھر چچا بھتیجا دونوں مکہ پہنچ گئے جو نہایت عزت و احترام اور امن