کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 85
مؤرخین کے مطابق اس دعوت کے اہتمام کا سبب شاید یہ تھا کہ راہب نے اپنے گرجے سے قافلے کو دیکھا کہ ایک بادل نے ان پر سایہ کیا ہوا ہے، پھر جب یہ لوگ درخت کے نیچے اترے تو بادل کا سایہ درخت پر تھا اور درخت کی پھیلی ہوئی ٹہنیوں نے جھک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا ہوا تھا۔ یہ حالات دیکھ کر بحیرا راہب اپنے گرجے سے باہر آیا اور قریش کے قافلے والوں کے لیے کھانے کا اہتمام کیا، پھر انھیں کھانے کی دعوت دی اور کہا: قریشی بھائیو! میں نے تمھارے لیے کھانا تیار کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم سب چھوٹے بڑے، غلام اور آزاد سب کھانے پر آؤ۔
قریش کے قافلے میں سے ایک شخص بولا: اللہ کی قسم! اے بحیرا! آج کوئی خاص معاملہ ہے ورنہ ہم تو اس سے پہلے بھی یہاں سے متعدد بار گزر چکے ہیں مگر آپ نے ہماری کبھی ضیافت نہیں کی۔ آج کیا معاملہ ہے؟ اس کی حقیقت بتاؤ۔
بحیرا نے جواب دیا: تم سچ کہتے ہو، پہلے ایسا ہی ہوتا رہا ہے جیسے تم نے کہا ہے۔ تم بہر حال میرے مہمان ہو اور میری چاہت ہے کہ میں تمھاری عزت کروں اور تمھیں کھانا کھلاؤں، لہٰذا تم سب میری دعوت قبول کرو۔
قریش کے تمام بڑے بڑے افراد کھانے کے لیے بحیرا کے پاس جمع ہو گئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجارتی سامان کے پاس درخت کے نیچے ہی ٹھہر گئے کیونکہ قافلے والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوٹا ہونے کے ناتے سامان کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا۔ بحیرا نے قافلے والوں پر نظر دوڑائی تو اسے ان لوگوں میں وہ صفات نہ ملیں جنھیں وہ پہلے سے جانتا تھا اور وہ صفات اپنی کتابوں میں لکھی ہوئی پاتا تھا۔
بحیرا کہنے لگا: قریشی بھائیو! میں نے آپ سے کہا تھا کہ میرے کھانے کی دعوت