کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 84
دور ہیں جس و جہ سے آدمی نو رالٰہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی نور کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کا انتخاب فرمایا اور ان برگزیدہ ہستیوں کی خود تربیت فرمائی اور انھیں حکمت اور ہدایت سے نوازا۔
ان دنوں جب قریش اپنے دستور کے مطابق موسم گرما اور سرما میں اپنے سامان تجارت کے ساتھ تجارت کی غرض سے سفر پر نکلا کرتے تھے، ابو طالب نے بھی ان تجارتی قافلوں کے ساتھ اپنا کچھ سامان تجارت کی غرض سے لے جانے کے لیے غور و فکر کیا تاکہ کچھ مالی فائدہ ہو جائے اور اتنے بڑے خاندان کی کفالت میں آسانی پیدا ہو۔
ابو طالب نے جب سفر کی تیاری کر لی اور قافلے کی روانگی کا وقت آیا تو (مؤرخین کی روایات کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ چمٹ گئے جس سے ابو طالب کا دل بھر آیا اور کہا: اللہ تعالیٰ کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور ساتھ لے کر جاؤں گا۔ آپ مجھ سے جدا ہوں گے، نہ میں آپ سے دور رہوں گا، چنانچہ ابو طالب تجارت کے لیے جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ساتھ لے گئے۔
جب قافلہ شام پہنچ گیا تو شام کے شہر بُصری میں پڑاؤ ڈالا۔ یہاں بحیرا نامی ایک راہب اپنی کٹیا (کنیسہ یا عبادت خانہ) میں رہتا تھا۔ وہ عیسائیت کا عالم اور ماہر انساب بھی تھا۔ قریش مکہ جب بھی تجارتی غرض سے شام کی طرف سفر پر جاتے تو اکثر اوقات بصری شہر میں بحیرا کے پاس ہی قیام کرتے تھے۔ مگر بحیرا نے کبھی ان سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ اس مرتبہ (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریش کے قافلے میں شامل تھے) قریش کا تجارتی قافلہ بحیرا کے پاس پہنچا تو اس نے ان کے لیے کھانا تیار کیا اور انھیں کھانے کی دعوت دی۔