کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 58
بستی میں چلا جائے گا اور وہاں کے لوگوں کو بھی خراب کرے گا اور پھر تمھارے پاس بہت بڑا لشکر لے کر آ جائے گا۔ حاضرین نے کہا: ’’بزرگ نے ٹھیک کہا ہے۔‘‘ ابو جہل نے کہا: میرا مشورہ یہ ہے کہ تمام قبائل میں سے ایک ایک آدمی لیا جائے اور انھیں اسلحہ دے کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے قتل کے لیے بھیجا جائے۔ یہ سب یکبارگی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)پر حملہ کر کے اسے (معاذ اللہ) قتل کر دیں۔ بنو مطلب تمام قریشیوں کو قتل کرنے سے تو رہے، لہٰذا وہ دیت ہی پر راضی ہو جائیں گے۔ ابلیس نے کہا: اس نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ یہ نوجوان تم سب سے زیادہ اچھی رائے والا ہے۔[1] اللہ تعالیٰ نے کفار کی یہ سازشیں اور تدبیریں باطل کر ڈالیں۔ اللہ نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نصرت و اعانت سے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیات نازل فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق ہجرت (ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) کو پڑھ کر سنائیں۔ ﴿ وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّٰهُ وَاللّٰهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ﴾ ’’اور جب کافر آپ کے خلاف سازش کر رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر دیں یا آپ کو نکال دیں۔ وہ بھی مکر کر رہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘ [2] وہ بہتر تدبیر کرنے والاہے کہ اس نے اپنے بندے کو کفر کے پنجوں سے بچا لیا۔
[1] تفسیر الطبري:9؍229۔ [2] الانفال 8: 30۔