کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 57
ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ﴾ ’’یا وہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہے؟ بلکہ وہ ان کے پاس حق لایا ہے اور ان کی اکثریت حق کو ناپسند کرنے والی ہے۔‘‘ [1] قریش ہنگامی طور پر دارالندوہ میں جمع ہوتے تھے۔ اب اس طرح کی میٹنگیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ اس اجتماع کا مقصد صرف یہی تھا کہ کوئی خاص منصوبہ بنایا جائے تاکہ اس دعوت کا نام و نشان صفحۂ ہستی سے مٹ جائے۔ یہ روایت بھی ہے کہ اس مجلس میں شیطان ایک تجربہ کار بزرگ کی شکل میں حاضر ہوا۔ حاضرین میں سے کسی نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کو صبح سویرے اس کے بستر ہی سے اٹھا لو اور پھر کسی گھر میں محبوس کر کے دیکھو کہ کیا صورت حال پیش آتی ہے۔ ابلیس نے کہا: تو نے بہت برا مشورہ دیا ہے۔ تم لوگ اسے جہاں بھی چھپاؤ گے اس کے ساتھی اسے نکال لے جائیں گے، پھر تمھارے اور ان کے درمیان خوب لڑائی ہو گی۔ سب نے ابلیس کی اس بات کو سراہا۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کو اپنی بستی سے نکال دو۔ ابلیس نے پھر کہا: تو نے بھی بہت بری بات کی ہے۔ تم اسے اپنی بستی سے نکال دو گے تو کیا ہو گا۔ اس نے تو پہلے ہی سے تمھارے بیوقوفوں کو خراب کر دیا ہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ وہ کسی دوسری
[1] المؤمنون 23 :70۔