کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 56
اخنس نے کہا: اللہ کی قسم! میری حالت بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ پھر وہ وہاں سے ابو جہل کے پاس آیا اور کہا: اے ابو الحکم! جو کچھ تم نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کی زبان سے سنا ہے اس بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ ابو جہل نے جواب دیا: تم نے ہمارے اختلافات کے بارے میں کیا سنا ہے۔ بتاؤ ہمارے اور عبد مناف کے شرف و منزلت میں کیا فرق ہے؟ وہ غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو ہم بھی کھلاتے ہیں۔ اگر وہ سواری کے جانور تقسیم کرتے ہیں تو ہم بھی تقسیم کرتے ہیں۔ وہ عطیات دیتے ہیں تو ہم بھی دیتے ہیں۔ حتی کہ جب ہم ان کے ہم پلہ ہو گئے تو انھوں نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ہمارے درمیان ایک نبی ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ ہمیں یہ مرتبہ کب حاصل ہو گا؟ اللہ کی قسم! ہم اس کی بات پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور نہ کبھی اس کی تصدیق کریں گے۔ یہ باتیں سن کر اخنس وہاں سے چلا گیا۔[1] قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ انکار حق کا اصل سبب جاہ و حشمت اور اغراض دنیا میں مسابقت تھا۔ یہ کفر کے سرغنے حق سے ایک لمحہ بھی غافل نہ تھے۔ یہ لوگ حق کو پہچان چکے تھے۔ انھیں صرف یہی حسد کھائے جا رہا تھا کہ نبوت بنی عبدمناف کے شخص کو کیوں ملی ہے اور ان میں سچا نبی کیوں آیا ہے۔ وہ تو پہلے ہی تمام عہدے سنبھالے ہوئے تھے۔ غریبوں کو کھانا کھلانا، عطیات تقسیم کرنا، کمزوروں کی مدد اور قریش کا دفاع کرنا یہ سب کارنامے انھی کے تو تھے۔ ان منکرین کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ وہ بھی یہ کارنامے انجام دیں۔ لیکن وہ یہ مراتب کبھی حاصل نہیں کر سکے کیوں کہ وہ ملمع سازی کرتے تھے، حالانکہ خلوص اور دکھلاوے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ حق اور باطل میں فرق واضح
[1] الروض الأنف:3؍197۔