کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 55
یا یہ لوگ اس بات کے منکر تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ اگر یہ و جہ بھی نہیں تھی تو آخر کیا و جہ تھی؟ کیا انھیں قرآن سننا پسند نہیں تھا؟ ابن اسحاق نے امام زہری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ایک رات سفیان بن حرب، ابو جہل بن ہشام اور اخنس بن شریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن سننے کے لیے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھ رہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک چھپ کر بیٹھ گیا۔ وہ قرآن سنتے رہے حتی کہ فجر ہو گئی، پھر یہ بکھر گئے۔ اچانک راستے میں ان کی آپس میں ملاقات ہو گئی تو سب نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور کہنے لگے: ’’اس قسم کی حرکت پھر کبھی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر تمھارے کسی بے وقوف نے تمھیں دیکھ لیا تو بہت برا سمجھے گا۔ ‘‘ دوسری رات پھر انھوں نے فجر تک قرآن سنا اور پھر راستے میں ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے ایک دوسرے کو پھر ملامت کی اور چلتے بنے۔ تیسری رات پھر انھوں نے ایسا ہی کیا، راستے میں جب ان کا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے: ’’ٹھہرو! اب ہم ایک دوسرے سے معاہدہ کرتے ہیں کہ دوبارہ یہ حرکت نہیں کریں گے۔‘‘ چنانچہ معاہدہ کرکے چلے گئے۔ [1] صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی لی اور ابو سفیان کے گھر جا پہنچا اور کہا: اے ابوحنظلہ! تو نے جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)سے سنا ہے اس کے بارے میں مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر۔ اس نے کہا: اے ابو ثعلبہ! اللہ کی قسم! میں نے ایسی باتیں سنیں ہیں جو میں پہچانتا ہوں اور ان کی مراد بھی جانتا ہوں اور کچھ باتیں میری سمجھ سے بالا تر ہیں۔
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍338۔