کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 53
قبیح گالی دی تھی۔ [1] ابو جہل نے محسوس کر لیا تھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھیوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور وہ علی الاعلان اپنے اسلام کا اظہار بھی کرنے لگے ہیں۔ صرف حمزہ رضی اللہ عنہ کی بات نہیں تھی بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا اور وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے تھے اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں سے کچھ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تسلیم نہیں کیا تھا پھر بھی وہ دل و جان سے آپ کا ساتھ دے رہے تھے اور آپ کو بے یارو مدد گار چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہ دیکھتے ہوئے ابو جہل نے دارالندوہ میں بڑے بڑے سرداروں کی ہنگامی میٹنگ بلوائی۔ اس بیٹھک میں بنو ہاشم کے بائیکاٹ کی قرار داد منظور کی گئی، باقاعدہ ایک دستاویز لکھی گئی اور کعبہ کے صحن میں لگا دی گئی۔[2] بائیکاٹ کے عرصے میں ایک دن ابو جہل حکیم بن حزام بن خویلد سے ملا۔ حکیم کے پاس کچھ آٹا تھا جسے وہ اپنی پھوپھی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا تک پہنچانا چاہتے تھے۔ ابوجہل آڑے آگیا اور کہنے لگا: کیا تو بنو ہاشم تک یہ کھانا بھیجنا چاہتا ہے، اللہ کی قسم! میں تجھے مکہ میں رسوا کر دوں گا۔ اتنے میں ابوالبختری آ گئے، انھوں نے اس جھگڑے کی و جہ پوچھی تو ابو جہل نے کہا: یہ بنو ہاشم کو کھانا دینا چاہتا ہے۔ ابوالبختری نے کہا: وہ اپنی پھوپھی کے لیے کھانا لایا ہے اور تو کہتا ہے یہ اس کو کھانا نہ پہنچائے، یہ اچھی بات نہیں ہے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ کھانا دیے بغیر واپس چلا جائے، اسے جانے دو۔ ابوجہل پھر بھی راستے سے نہ ہٹا اور انھیں روکتا رہا، اس پر ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا اور
[1] الکامل في التاریخ:2؍82۔ [2] الکامل في التاریخ: 2؍82۔87۔