کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 52
اللہ کی رحمت اور اس کے فرشتوں اور لشکروں کی صورت میں اس کی مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ ابو جہل اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرنے لگا، یوں اس کی ہوا اکھڑ گئی۔ اسے لگا جیسے وہ اس بہت بڑے لشکر کے سامنے اکیلاہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں رعب ڈال دیا۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا کے قریب تشریف فرما تھے، ابوجہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ایذا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو برا بھلا کہا اور اس کا مذاق اڑایا۔
ایک عورت آپ کے قریب کھڑی یہ سارا ماجرا دیکھ رہی تھی۔ اسے ان باتوں سے بہت تکلیف ہوئی لیکن کر کچھ نہیں سکتی تھی۔ یہ عورت مومنہ تھی لیکن ایمان کا اظہار ابھی تک نہیں کیا تھا۔ یہ عبداللہ بن جدعان کی لونڈی تھی۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کو بتا دیا۔
حمزہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ ماجرا سنا تو جلدی سے بھاگتے ہوئے بیت اللہ کے پاس آئے جہاں ابوجہل اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھا۔ آتے ہی حمزہ رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کے سر پر کمان دے ماری اور اسے شدید زخمی کر دیا۔ پھر کہا: ’’کیا تو اس(محمدصلی اللہ علیہ وسلم )کو گالی دیتا ہے جب کہ میں خود اس کے دین پر ہوں۔ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے۔ اگر طاقت ہے تو پھر ایسا کرکے دکھانا۔‘‘ [1]
بنو مخزوم کا ایک آدمی ابوجہل کی مدد کرنے آیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف لپکا تو ابو جہل نے کہا: ابو عمارہ(حمزہ رضی اللہ عنہ ) کو کچھ نہ کہو۔ اللہ کی قسم! میں نے اس کے بھتیجے کو بہت
[1] الکامل فی التاریخ:2؍82۔