کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 51
وہ گیا اور فوراً مال لے کر آ گیا اور اس آدمی کو دے دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے اور پردیسی سے فرمایا: ’’اب خوشی سے جاؤ اور اپنا کام کرو۔‘‘ [1]
پردیسی سیدھا قریش کی اس مجلس کے پاس آیا اور کہا: اللہ جزائے خیر دے، اس آدمی نے میرا حق مجھے لے دیا ہے۔
وہ آدمی بھی آ گیا جسے انھوں نے دیکھنے کے لیے بھیجا تھا۔ مجلس میں سے کسی نے اس سے پوچھا: تیری تباہی ہو، بتاؤ تو سہی وہاں کیا دیکھا ہے؟ اس نے کہا: بہت ہی عجیب واقعہ ہوا ہے، اللہ کی قسم! بہت ہی عجیب معاملہ تھا۔ میں نے دیکھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)نے اس کے دروازے پر دستک دی۔ وہ آیا تو اس کی ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)نے ابو جہل سے کہا: اسے اس کا حق دے دو۔ تو اس نے کہا: دیتا ہوں جی، آپ ٹھہریے، میں ابھی لے کر آتا ہوں۔ وہ اندر گیا اور مال لا کر اس شخص کو دے دیا۔[2]
تھوڑی دیر بعد ابو جہل بھی آ گیا تو انھوں نے اس سے کہا: تمھارا مال تباہ ہو۔ اللہ کی قسم! آج سے پہلے ہم نے کبھی تمھیں ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔آج تمھیں کیا ہوا؟
اس نے کہا: تمھاری بربادی ہو! اللہ کی قسم! اس نے میرے دروازے پر دستک دی جونہی میں نے اس کی آواز سنی، میں مرعوب ہو گیا۔ جب میں باہر اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ اس کے سر پر ایک نر اونٹ بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے اس جیسا اونٹ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ بہت بڑا سر تھا، بہت لمبی گردن اور بڑی بڑی انیاب تھیں اس کی۔ اللہ کی قسم! اگر میں انکار کر دیتا تو وہ اونٹ مجھے نگل جاتا۔[3]
جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب پر بھروسا کرتے ہوئے ابوجہل کے پاس گئے تو
[1] البدایۃ والنھایۃ:3؍38۔
[2] البدایۃ والنھایۃ:3؍41۔
[3] الروض الأنف:3؍372۔