کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 50
میں تشریف فرما تھے۔
پردیسی نے کہا: اے قریش کی جماعت! کون شخص مجھے ابو الحکم بن ہشام سے میرا حق لے کر دے گا۔ میں مسافر ہوں اس نے میرا حق دبا لیا ہے۔
مجلس والوں نے کہا: تم اس آدمی کو دیکھ رہے ہو؟ (انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔) تم اس کے پاس جاؤ، یہ شخص تمھیں تمھارا حق دلوا دے گا۔ قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل کے باہمی اختلاف سے خوب واقف تھے۔ انھوں نے جانے بوجھے اس پردیسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔
بہرحال وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اے اللہ کے بندے! ابوالحکم بن ہشام نے میرا حق دبا رکھا ہے۔ میں مسافر اور اجنبی ہوں۔ میں ان (قریشیوں) کے پاس مدد کے لیے گیا تو انھوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا ہے۔ اب آپ مجھے میرا حق لے کر دیں، اللہ آپ پر رحم کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ چل پڑے۔ قریشیوں نے یہ صورت حال دیکھی تو انھوں نے اپنی مجلس سے ایک آدمی کو روانہ کیا اور کہا کہ دیکھو کیا بنتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوجہل کے دروازے پر پہنچے، دستک دی۔ اندر سے آواز آئی: کون ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں محمد ہوں، باہر آؤ۔‘‘
ابو جہل باہر آیا تو اس کا خوف کے مارے خون خشک ہوا جا رہا تھا اور رنگ اڑتا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس آدمی کا حق اس کو دے دو۔‘‘
ابو جہل نے کہا: اچھا جی! آپ یہیں ٹھہریے میں ابھی لے کر آتا ہوں۔