کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 49
’’ تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے۔‘‘ [1] ابو جہل نے محسوس کر لیا تھا کہ اس کا مقام بتدریج لوگوں کی نظروں میں کم ہوتا جارہا ہے اور لوگ اسے حقارت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ قرآنی آیات ان سخت دلوں کو جھنجھوڑ رہی ہیں جو اس کا ساتھ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس کی اسی حالت پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: ﴿ إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ، طَعَامُ الْأَثِيمِ ، كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ ، كَغَلْيِ الْحَمِيمِ ﴾ ’’بے شک تھوہر کا درخت بڑے گناہ گار کا کھانا ہے۔ جیسے پگھلا تانبا، وہ پیٹوں میں کھولے گا تیزگرم پانی کے کھولنے کی طرح ۔‘‘ [2] ابوجہل نے کہا: اے قریش کی جماعت! کیا تم جانتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)جس زقوم درخت سے تمھیں خوفزدہ کرتا ہے وہ کون سا درخت ہے؟ انھوں نے کہا: ہمیں معلوم نہیں۔ اس نے جواب میں کہا کہ اس سے یثرب کی عجوہ کھجور مراد ہے۔ اللہ کی قسم! اگر یہ ہمیں مل جائے تو ہم تو اسے نگل جائیں گے۔ ابو جہل نے اپنے ساتھ مکہ کے کئی ایک لوگوں کو ملا لیا تھا، یوں صرف ابو جہل ہی نہیں بلکہ اس کے پیرو کار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخی کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بابل کے باشندوں میں سے ایک شخص مکہ آیا۔ اس کے پاس ایک اونٹ تھا، ابو جہل نے اس سے خرید لیا لیکن قیمت دینے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ وہ شخص قریش کی ایک مجلس میں پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد کے ایک گوشے
[1] المدثر 74 :31۔ [2] الدخان 44: 46۔43۔