کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 48
دعوت جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)پیش کرتے ہیں بہتر اور حق ہوتی تو یہ کمزور لوگ ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔ کیا ’’زِنّیرہ‘‘ (لونڈی تھی جسے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آزاد کرایا) سچائی اور حق کو پانے میں ہم سے سبقت لے جاتی؟[1] اس کی ڈھٹائی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اللہ (قرآن) کا بھی مذاق اڑاتا، چنانچہ وہ کعبۃ اللہ کے پاس بیٹھ جاتا اور کہتا: اے قریش کی جماعت! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کا گمان ہے کہ تمھیں جہنم میں عذاب دینے والے اللہ کے لشکروں کی تعداد 19 ہے۔ تم کثرت تعداد میں ان تمام لوگوں سے زیادہ ہو۔ کیا تمھارے 100 آدمی وہاں کے ایک شخص کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ’’اور ہم نے دوزخ کے داروغے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ اور ہم نے (انیس کی) گنتی اس لیے مقرر کی ہے کہ کافر (یہ سن کر) گمراہ ہوں۔‘‘ [2] افسوس ہے ان کم عقلوں پر۔ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آگ اور اس پر نگران فرشتے اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی امت کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے اسے کسی تعداد اور تیاری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ تو محض حکم دیتا ہے اور سب کچھ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ﴾
[1] الروض الأنف:3؍221۔ [2] المدثر 74 :31۔