کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 47
رہے، تو تو بے و قوف نکلا۔ ہم تیرے مکر کو باطل کر کے چھوڑیں گے اور تیرے شرف و فضل کو رسوا کر دیں گے۔
اگر وہ تاجر ہوتا تو اسے جا کر کہتا: سن لے، ہم تیری تجارت کا مندا کر دیں گے، تیرا مال تباہ کر دیں گے اور تجھے کنگال کر کے چھوڑیں گے۔ اور اگر وہ ہر لحاظ سے کمزور ہوتا تو اسے جسمانی تشدد کا ہدف بناتا تھا۔[1]
جب اسے اپنے اخیافی بھائی عیاش بن ابی ربیعہ کی ہجرت کا پتا چلا تو فوراً مدینہ پہنچا اور سازش کے ذریعے سے اسے واپس مکہ لے آیا اور دن چڑھے مکہ میں داخل ہوا۔ اس نے اپنے بھائی کو جکڑا ہوا تھا۔ اور بلند آواز سے کہہ رہا تھا: اے اہل مکہ! تم بھی اپنے بے وقوفوں کے ساتھ وہی سلوک کرو جو ہم نے کیا ہے۔[2]
وہ شخص جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا، دین ابراہیم کو اپناتے ہوئے پتھروں اور بتوں کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا اور مکارم اخلاق کو اپناتا وہ ابو جہل کی نظر میں بے وقوف ہوتا تھا۔
اس کے برعکس جو مردار کھاتا، بتوں کو پوجتا، کمزوروں کو پیٹتا اور حلال و حرام میں امتیاز نہ کرتا، ایسا شخص اس کی نظر میں بڑا سمجھدار اور دانشور ہوتا تھا۔
جہالت بکنے والے جس زمانے اور جس شہر کے بھی ہوں فکر سلیم سے خالی ہوتے ہیں۔ حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہوتی۔
یہ ابو جہل مسلمانوں کا مذاق اڑاتا اور کہتا:
تم ان کمزور لوگوں پر تعجب نہیں کرتے جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے تابع ہوئے ہیں۔ اگر وہ
[1] الروض الأنف:3؍202۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:2؍84۔