کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 46
جی ہاں! یہ وہ عظیم شخصیات ہیں جنھوں نے تعلیماتِ اسلام کی تربیت حاصل کی تھی۔ جو اپنے لیے تو مخلص تھے ہی لیکن غیروں کے ساتھ بھی اخلاص کے ساتھ رہنے کی انتہا کر دی حتی کہ زندگی کے آخری چند لمحات میں بھی دوسروں کو ترجیح دیتے رہے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو اپنی زندگی سے زیادہ اپنے دین کو محبوب سمجھتے تھے۔ یہی و جہ ہے کہ وہ نصرت اسلام کے لیے اپنی قیمتی ترین متاع بھی خرچ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ دیکھیے ہر ایک دوسرے کی زندگی بچانے کا حریص ہے۔ اسی دوران وہ شہادت کے بھی متمنی ہیں جو ایک مجاہد مسلمان کا مقصد ہوتا ہے تا کہ وہ اپنے حقیقی مالک سے جلد از جلد ملاقات کا شرف حاصل کر سکیں۔ تا ہم اس دور میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جن کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔ ان کی آنکھیں حق دیکھنے سے قاصر تھیں۔ دل ایسے سخت تھے کہ رحمت اور شفقت کے لیے نہیں دھڑکتے تھے۔ ان میں یہ احساس و شعور ہی نہیں تھا کہ غور و فکر کرتے اور ہدایت پا سکتے۔ اس دوسرے گروہ میں سے ایک ابو جہل بھی تھا جو بیک وقت اللہ تعالیٰ کا، دعوت اسلام کا اور حاملین دعوت اسلام کا دشمن تھا۔ کمزوروں کو اتنا عذاب اور تکالیف دیتا تھا کہ ان میں سے کچھ تو تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے جیسے ام عمار سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہما ہیں انھیں اسلام کی پہلی شہیدہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔[1] ابو جہل جب بھی کسی آدمی کے بارے میں سنتا کہ ا س نے اسلام قبول کر لیا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع ہو گیا ہے، تو اگر وہ حسب نسب والا ہوتا تو اسے کہتا: تو نے اپنے باپ کا دین چھوڑ دیا ہے، حالانکہ تیرا باپ تجھ سے افضل تھا۔ ہم تو تجھے عقل مند سمجھتے
[1] الروض الأنف:3؍202۔