کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 38
ولید ((ہمّاز)) یعنی بہت عیب جو اور طعنے دینے والا انسان تھا۔ ہر وقت دوسروں کی عیب جوئی کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ لوگوں کی موجودگی اور عدم موجودگی میں اپنے قول اور اشارے کنائے سے لوگوں کی عیب جوئی کرتا تھا۔ اسلام عیب جوئی کو شدید کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ مروت کے خلاف ہے، ادب کے متضاد ہے۔ لوگوں کے ادب اور حفظ کرامت کے مخالف ہے، خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ اس بری صفت کی مذمت قرآن پاک میں متعدد مقامات پر آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوا: ﴿ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ ﴾ ’’ہر طعنہ زن، عیب جو کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘ [1] ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ’’اے ایمان والو!مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں، اورنہ عورتیں دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ہوسکتا ہے کہ وہ (عورتیں) ان سے بہتر ہوں، اور تم آپس میں (ایک دوسرے پر) عیب نہ لگاؤ، اور تم ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو، ایمان (لانے) کے بعد فاسقانہ نام (سے پکارنا) برا ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی، تو وہی (لوگ) ظالم ہیں۔‘‘ [2]
[1] الھمزۃ 104: 1۔ [2] الحجرات 49 :11۔