کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 36
يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ﴾ ’’اور انھوں نے کہا: یہ قرآن ان دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟ ہم ہی نے دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی تقسیم کی ہے اور ہم ہی نے درجات میں انھیں ایک دوسرے پر برتری دی ہے تا کہ وہ ایک دوسرے کو خدمت گار بنائیں اور آپ کے رب کی رحمت اس سے بہت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘ [1] کیا اس ڈانٹ کا ولید کو کوئی فائدہ ہوا اور کیا وہ گمراہی سے راہ راست پر آگیا؟ حقیقت یہ ہے کہ ولید پر اس ڈانٹ ڈپٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا، نہ وہ راہ راست پر آیا۔ ان فطری عوامل کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا، وہ گمراہی کے اندھیرے سے نہیں نکل سکا، چنانچہ ولید کی گھٹیا صفات کا تذکرہ اللہ نے رسول پر وحی کی صورت میں نازل فرما دیا۔ تاکہ قیامت کے دن تک یہ ان ظالموں کے لیے ایک نمونے کی شکل میں رہے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور دشمنی کا اعلان کرتے ہیں اور شریعت کے احکام ماننے والوں کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ ، هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ، مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ، عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ ، أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ ، إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ﴾
[1] الزخرف 43 :32,31۔