کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 25
﴿ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ، أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ ﴾ ’’اور انھوں نے کہا: یہ قرآن ان دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟ ہم ہی نے دنیوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی روزی تقسیم کی ہے اور ہم ہی نے درجات میں انھیں ایک دوسرے پر برتری دی ہے تا کہ وہ ایک دوسرے کو خدمت گار بنائیں اور آپ کے رب کی رحمت اس سے بہت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘ [1] چنانچہ اسی وقت سے ولید بن مغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن بن گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذائیں پہنچاتا رہا۔ دوسرے قریش کے زعما بھی اس خبیث کی حمایت کرتے تھے۔ ان ظالموں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب اور آپ کے گھر والوں کو تکالیف اور سخت ایذائیں پہنچائیں۔ وحی کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی دلائل دیے انھوں نے ان سب کا انکار کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پے آزار ہوئے اور یہودیوں کو بھی اس کام پر ابھارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حالات سے تنگ آ گئے اور اپنے رب تعالیٰ کے حکم کا انتظار کرنے لگے۔ دن ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے، یہ الٹ پلٹ کر آتے ہیں، آج کی پریشانیاں کل کو
[1] الزخرف 43 :32,31۔