کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 249
میں اہل فارس کے پاس گیا، وہاں اس نے ان کے حکمرانوں، رستم اور اسفند یار وغیرہ کے بارے میں قصے سنے اور یاد کر لیے۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قرآن کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں تو اس نے ایک تدبیر سوچی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی مجلس سے اٹھتے جس میں نضر بن حارث بھی بیٹھا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد وہ لوگوں کو ایرانی بادشاہوں کے قصے سنانے لگتا۔ پھر وہ لوگوں سے پوچھتا: ’’اللہ کی قسم! ہم میں سے کون بہتر قصے سناتا ہے، میں یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم ؟‘‘ اسی و جہ سے جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر کے دن اس پر قدرت دی اور اسے قیدی بنا لیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔ جس کی تعمیل کی گئی۔ وللّٰہ الحمد۔ ابن جریر کے قول کے مطابق اسے قید کرنے والے سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ تھے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن ابی معیط، طعیمہ بن عدی اور نضر بن حارث کو باندھ کر قتل کرایا۔ سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے نضر بن حارث کو قیدی بنایاتھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا تو سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! یہ میرا قیدی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ اللہ کی کتاب (قرآن) کے بارے میں نازیبا الفاظ کہتا تھا۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: ’’اے اللہ کے رسول! یہ میرا قیدی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! تو مقداد کو اپنے فضل سے غنی اور بے پروا کر دے۔‘‘