کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 247
کے جوانوں نے تھام رکھے تھے۔ ان میں سے ایک جھنڈا نضر بن حارث کے پاس دوسرا عزیز بن عمیر کے پاس اور تیسرا طلحہ بن ابی طلحہ کے پاس تھا۔
معرکے کا آغاز ہوا تو مجاہدینِ اسلام نے بہت گھمسان کی جنگ کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے مسلمانوں کی مدد کی اور مشرکین کی جماعت کو رسوا کن شکست ہو گئی۔
اس موقع پر نضربن حارث کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا اسے بھی ابو جہل اور امیہ بن خلف کی طرح میدانِ جنگ میں قتل کر دیا گیا؟
اس کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک درد ناک عذاب تیار کر رکھا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ رکھا تا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کی کامیابی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے، اور اسے یقین ہو جائے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، وہ نہ تو قصے کہانیاں ہیں اور نہ کسی انسان کا کلام ہے بلکہ یہ تو اللہ احکم الحاکمین کا کلام ہے جسے اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کیا۔ اسی لیے چیلنج کے باوجود عرب کے یہ فصیح و بلیغ لوگ قرآن جیسی کو ئی سورۃ نہ لاسکے۔
نضر بن حارث ابتدا میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ اسے قیدی بنا لیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا کامیاب و کامران لشکر مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب انھوں نے ’’صفراء‘‘ جگہ پر پڑاؤ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نضر بن حارث کو قتل کر دینے کا حکم صادر فرما دیا۔ چنانچہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں نضر بن حارث کا سر تن سے جدا کر دیا۔