کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 245
ممکن ہے کہ وہ عرب کے کسی قبیلے کی پناہ حاصل کر لے اور وہاں کے باسیوں کو اپنی باتوں سے ورغلا کر تمھارے مقابلے میں لے آئے اور تمھیں تمھارے ہی شہر میں روند کر تمھارے ہاتھ سے سرداری چھین لے۔ پھر وہ جو چاہیں گے تمھارے ساتھ سلوک کریں گے، لہٰذا کوئی اور تدبیر کرو۔‘‘
آخر کار ابوجہل کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’ میرے پاس ایک رائے ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ تم میں سے کسی کے بھی ذہن میں نہیں آئی ہو گی۔‘‘
سب نے پوچھا: ’’اے ابو الحکم! وہ رائے کیا ہے؟ ‘‘
ابو جہل نے کہا: ’’میری رائے یہ ہے کہ مکہ کے ہر قبیلے سے ایک ایک مضبوط اور بہادر نوجوان منتخب کیا جائے اور ہر ایک کو تلوار سے مسلح کر دیا جائے۔ وہ سب یکبارگی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیں۔ اگر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو اس کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف تمام قبائل سے جنگ کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ مجبوراً وہ دیت پر راضی ہو جائیں گے اور ہم انھیں دیت ادا کر دیں گے۔ ‘‘ ابلیس خوشی سے جھوم اٹھا اور کہنے لگا: ’’اصل بات تو اس آدمی نے کی ہے، یقیناً اس سے بہتر کوئی اور رائے ہو بھی نہیں سکتی۔‘‘ چنانچہ اسی رائے پر اتفاق کرتے ہوئے وہ سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔‘‘[1]
لیکن ان کی ساری تدبیر خاک میں مل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے تو مشرکینِ قریش کے بہادر نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو گھیرے بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے ان کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے بخیر و عافیت یثرب کی طرف ہجرت کر گئے۔ یثرب مدینہ کا پرانا نام تھا۔ مدینہ ان
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:2؍94۔ 95۔