کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 244
سے کام لینا شروع کر دیا۔ اللہ نے بھی ان کے بارے میں تدبیر کی اور وہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
چنانچہ قریش نے دارالندوہ میں ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا اور آپس میں مشاورت کرنے لگے۔ نضر بن حارث نے کہا: ’’بلاشبہ اس آدمی(محمدصلی اللہ علیہ وسلم )کا معاملہ تمھارے سامنے ہے۔ لوگ تیزی سے اس کے ساتھ مل رہے ہیں۔ اللہ کی قسم! ہم اس بات سے محفوظ نہیں کہ ایک دن وہ سب مل کر ہم پر حملہ آور ہو جائیں، لہٰذا ان کے بارے میں کوئی ایک رائے اختیار کرو تا کہ ان کا سد باب کیا جا سکے۔‘‘
تھوڑی دیر سوچ بچار کے بعد امیہ بن خلف نے کہا: ’’انھیں ایک آہنی مکان میں قید کر دو اور ان کی موت کا انتظار کرو جیسا کہ کچھ شعراء زہیر اور نابغہ وغیرہ کے ساتھ کیا گیا تھا۔‘‘
ابلیس بھی اس گفتگو میں شامل تھا، اس نے اِس رائے کو رد کر دیا اور کہنے لگا: ’’نہیں! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تم اسے اپنی رائے کے مطابق قید بھی کرتے ہو تو اس کی خبر وہاں سے اس کے ساتھیوں تک پہنچ جائے گی اور قرین قیاس ہے کہ اس کے ساتھی تم پر حملہ کر کے اسے چھڑا لے جائیں گے اور اکثریت حاصل کرنے کے بعد تم پر غالب آجائیں گے، لہٰذا کوئی اور رائے دو۔‘‘
پھر عقبہ بن ابی معیط کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’ہم اسے جلا وطن کر دیتے ہیں، پھر ہمیں کسی قسم کی پروا نہیں ہو گی کہ وہ کہاں جاتا اور کیا کرتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد ہم دوسروں کو بھی ٹھیک کر سکیں گے۔‘‘
ابلیس نے اس کی رائے کو بھی رد کر دیا اور کہنے لگا: ’’ یہ مشورہ بھی ٹھیک نہیں۔ تم دیکھتے نہیں کہ اس کی گفتگو کس قدر عمدہ ہے اور اس کی باتوں میں کتنی چاشنی ہے۔ جو بھی اس کے پاس آتا ہے اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر تم نے اسے جلا وطن کر دیا تو