کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 243
مان لیا جب انھوں نے مدینہ میں اس سے کہا: ’’اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالوں کے جواب دے دیں تو وہ نبی ہیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سوالوں کے نہ صرف جواب دیے بلکہ ان کی وضاحت بھی فرما دی تھی۔ تو پھر یہ انکار اور ہٹ دھرمی کیوں تھی؟ اس میں تعجب والی کوئی بات نہیں کیونکہ کفر آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے۔ اس کا مفہوم ان کے اس قول سے بخوبی واضح ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں بیان کر دیا گیا ہے:
﴿ وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾
’’اور جب انھوں نے کہا: ’’اے اللہ! اگر یہ (محمد) تیری طرف سے سچا (نبی) ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نازل فرما، یا ہمیں درد ناک عذاب دے۔‘‘ [1]
یہ بات ان کی ضد اور تعصب کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر انھوں نے حق کی پیروی کی تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔
بلاشبہ فطرت سلیمہ جب کسی شک میں مبتلا ہوتی ہے تو کسی قسم کی حقارت محسوس کیے بغیر اللہ ہی کو پکارتی ہے کہ وہ حق واضح کر دے اور حق کی طرف اس کی رہنمائی کرے۔ لیکن جب یہی فطرت تکبر و نخوت سے فاسد ہو جاتی ہے تو ایسی سوچ رکھنے والے یہاں تک کہنے لگتے ہیں کہ اگر وہ حق اور سچ کو مان لیتے تو تباہ و برباد ہو جاتے۔ یوں وہ اپنی جھوٹی انا کی خاطر صراطِ مستقیم کو ٹھکرا دیتی ہے۔
مشرکین اسی نخوت کی و جہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے۔ لیکن جب ان کا تکبر ناکام ہو گیا تو انھوں نے غور و فکر اور مکر و فریب
[1] الانفال 8 :32۔