کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 242
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اہلِ مکہ کی باتوں کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا پھر جبریل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر نازل ہوئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین ہونے پر توبیخ کی گئی اور مشرکین کے تینوں سوالوں کے جواب بھی دیے گئے۔
ایک روایت میں ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اے جبریل! آپ نے آنے میں اتنی دیر لگا دی کہ مجھے طرح طرح کے وسوسے ستانے لگے۔ جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا:
﴿ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا ﴾
’’ہم صرف اللہ کے حکم ہی سے اترتے ہیں، اسی کے لیے ہے جو کچھ ہمارے آگے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں۔‘‘ [1]
مشرکین کے سوالوں کے جواب دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا:
﴿ وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا،إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللّٰهُ ﴾
’’اور کسی کام کے لیے ہرگز نہ کہو کہ میں کل کروں گا مگر اللہ کی مشیت کے ساتھ۔‘‘ [2]
اب سوال یہ ہے کہ کیا قریش اپنے سوالوں کے جواب ملنے کے بعد ایمان لے آئے؟ کیا ان کی رائے ٹھیک ہوگئی تھی؟ کیا وہ ہدایت کی طرف آگئے اور انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول مان لیا؟
کیا نضر بن حارث نے سوالوں کے جواب ملنے کے بعد یہودیوں کی اس بات کو
[1] مریم 19:64۔
[2] الکہف18: 24,23۔