کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 241
میں منادی کرا دی۔
’’اے قریش کی جماعت! ہماری طرف آؤ۔‘‘
جب لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے تو نضر بن حارث نے کہا: ’’اے قریش کی جماعت! ہم تمھارے پاس ایسی چیز لائے ہیں جو تمھارے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان فیصلہ کن ہو گی۔ ہمیں یہودی علماء نے ہدایت کی ہے کہ ہم اس(محمدصلی اللہ علیہ وسلم )سے تین چیزوں کے متعلق سوال کریں۔ اگر وہ اس کے جواب دے دے تو وہ نبی ہے اور اگر وہ جواب نہ دے سکے تو سمجھو وہ جھوٹا ہے۔ اس صورت میں تم اپنی رائے کے مطابق اس سے سلوک کرو۔
پھر قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ’’اے محمد! ہمیں ان نوجوانوں کے متعلق بتائیں جو پچھلے زمانے میں گزر چکے ہیں۔ اور اس آدمی کے بارے میں بتلائیں جس نے زمین کے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا ہے۔ اور ہمیں روح کے متعلق خبر دیں کہ یہ کیا چیز ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھیں ان سوالوں کے جواب کل دوں گا۔‘‘ چنانچہ قریش واپس چلے گئے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ دن تک اللہ کی طرف سے وحی کا انتظار کرتے رہے، لیکن وحی آئی، نہ جبریل علیہ السلام آئے، حتی کہ مشرکین نے پورے مکہ میں یہ بات پھیلا دی کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہم سے ایک دن بعد کا وعدہ کیا تھا اور آج پندرہ دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک انھوں نے ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔
وحی کے آنے میں اس قدر تاخیر کی و جہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہو گئے اور