کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 240
چنانچہ وہ مدینہ جانے کے لیے تیار ہوگئے اور برق رفتاری سے اپنے سفر کا آغاز کر دیا تاکہ وہ یہودیوں سے اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کر سکیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی حقیقت کے بارے میں جان سکیں۔ یہودیوں کے قبیلے میں انھیں ایک ایسا شخص مل گیا جو ان دونوں کو جانتا تھا، لہٰذا دونوں نے اسی کے گھر قیام کیا۔ انھوں نے یہودیوں کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت بیان کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور فرامین کے بارے میں خبر دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کی تصویر کشی کردی۔ پھر انھوں نے یہودیوں سے کہا: ’’تمھارے پاس ایک الہامی کتاب تورات ہے، ہم تمھارے پاس اس مقصد سے آئے ہیں کہ تم ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتلاؤ کہ کیا وہ نبی ہیں یا نہیں؟‘‘ یہودی علماء نے کہا: ’’تم اس سے تین چیزوں کے متعلق سوال کرو۔ اگر وہ ان کے بارے میں تمھیں جواب دے دے تو وہ یقیناً اللہ کا نبی اور پیغمبر ہے۔ لیکن اگر وہ تمھیں ان کے بارے میں نہ بتا سکے تو جو کچھ تم اس کے بارے میں کہہ رہے ہو وہ بالکل سچ ہے۔ اس سے اصحاب کہف کے متعلق سوال کرو کہ وہ کون تھے اور ان کی حقیقت کیا ہے۔ یقیناً ان کا قصہ بہت عجیب ہے۔ دوسرا سوال یہ کرو کہ جس نے زمین کے مشرق سے مغرب تک کا سفر کیا وہ کون تھا۔ تیسرا سوال روح کے متعلق پوچھو کہ روح کیا چیز ہے؟ اگر وہ تمھیں ان سوالوں کے جواب دے دیں تو ان کی پیروی کرو کیونکہ ان کے جواب ایک نبی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اگر وہ ان کے جواب نہ دے سکیں تو ان کے بارے میں تمھاری رائے ٹھیک ہے۔ پھر اس کے ساتھ وہی سلوک کرو جو تمھیں بہتر لگے۔‘‘ چنانچہ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط مکہ لوٹ آئے اور انھوں نے پورے شہر