کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 24
سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ جب ولید ہلاک ہو گیا تو قبائل مکہ ہزاروں کے حساب سے اس کے مقروض تھے۔
ثقہ مصادر میں یہ بات موجود ہے کہ ولید کا بیٹا خالد (جو بعد میں مسلمان ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سیف اللہ کا لقب دیا ) اسلام لانے تک یہ قرضہ وصول کرتا رہا۔ اور قرضہ ادا کرنے والے بھی اسلام قبول کرنے تک ہی یہ قرضہ ادا کرتے رہے ۔ لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے سود وصول کرنا چھوڑ دیا ۔ وہ صرف اصل مال وصول کرتے تھے کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سن لیا تھا:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود سے جو باقی ہے وہ چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔‘‘ [1]
جب ولید نے اسلام کی اس دعوت کو سنا جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور یہ بھی کہ بنو مطلب کے اس یتیم پر آسمان سے رب کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔ تو اس کی رگیں تکبر اور حسد کی و جہ سے پھول گئیں اور اس کی عزت نفس اسے گناہ پر ابھارنے لگی، وہ یہ سمجھنے لگا کہ میں نبوت و قرآن کا زیادہ حق دار ہوں۔ چنانچہ اس نے کہا: ’’کیا مجھے چھوڑ کر قرآن محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)پر نازل ہو گا؟ حالانکہ میں قریش کا بڑا سردار ہوں۔‘‘ [2]
قرآن پاک نے ان کی باطل خواہشات اور فضول خیالات کا تذکرہ کیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ یہ نبوت و رسالت دینا اللہ عزوجل کے اختیارات میں سے ہے، بندوں کا اس بارے میں کوئی اختیار نہیں ۔ چنانچہ ارشاد ہوا:
[1] البقرۃ2: 278۔
[2] تفسیر الطبري:25؍95، وتفسیر القرطبي:16؍83۔