کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 239
اے قریش کی جماعت! اللہ کی قسم! یقیناً تم پر ایک بہت بڑی بات نازل ہو چکی ہے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)جب تم میں چھوٹے اور معصوم تھے تو تم سب ان سے راضی تھے، وہ تم میں سب سے زیادہ بات کے سچے اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھے یہاں تک کہ جب تم نے ان کی کنپٹیوں کے بالوں میں سفیدی دیکھ لی اور وہ تمھارے پاس وہ پیغام لے آئے جسے وہ اللہ کا پیغام کہتے ہیں تو تم نے کہہ دیا: وہ جادو گر ہے۔ اللہ کی قسم! وہ جادو گر نہیں ہے۔ ہم نے جادوگروں کو بھی دیکھا ہے اور ان کی پھونکوں اور دھاگوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر تم نے کہہ دیا کہ وہ کاہن ہے۔ اللہ کی قسم! وہ کاہن بھی نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو بھی دیکھا ہے اور ان کا کلام بھی سن رکھا ہے لیکن اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر تم نے کہا کہ یہ شاعر ہے۔ اللہ کی قسم! یہ شاعر بھی نہیں ہے۔ بلاشبہ ہم اشعار کو بخوبی جانتے ہیں اور اس کی تمام اقسام کو سن رکھا ہے،لیکن اس میں ایسا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ تم نے یہ بھی کہاکہ یہ مجنون ہے۔ اللہ کی قسم! وہ مجنون بھی نہیں ہے۔ ہم نے مجنون لوگوں کو بھی دیکھا ہے اس میں کوئی جنون یا پاگل پن نہیں ہے۔ اے قریش کی جماعت! اللہ کی قسم! تم ایک بہت بڑی آزمائش میں مبتلا ہو چکے ہو۔[1] جب اس نے اپنی بات مکمل کر لی تو قریش نے اسے اور عقبہ بن ابی معیط کو مدینہ کے یہودی علماء کے پاس بھیجنے کے لیے تیار کیا اور ان سے کہا کہ تم یہودیوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کرنا، اس کی صفات ان کے سامنے بیان کرنا اور انھیں اس کی باتوں کی خبر دینا کیونکہ وہ اہلِ کتاب ہیں۔ اور ان کے پاس انبیاء کے بارے میں وہ علم ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍319۔