کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 238
گے، پس تو وہ کام کر گزر جس کا تو نے ارادہ کیا ہے۔[1]
جب صبح ہوئی تو ابو جہل نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسب معمول اس دن بھی صبح سویرے ہی مسجد میں آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تھے، اس وقت آپ کا قبلہ شام کی جانب تھا اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تو حجر اسود اور رکنِ یمانی کے درمیان کھڑے ہو جاتے تھے، اور کعبہ کو اپنے اور شام کے درمیان کر لیا کرتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس روز بھی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ قریش بھی صبح سویرے ہی اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے اور وہ اس انتظار میں تھے کہ دیکھتے ہیں ابوجہل کیا کرتا ہے؟
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دورانِ نماز سجدے میں گئے تو ابو جہل پتھر اٹھا کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھا، جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب پہنچ گیا تو اچانک پریشان اور بدحواس ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کا رنگ اڑ گیا، پتھر پر اس کی گرفت کمزور پڑ گئی اور پتھر اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر سردارانِ قریش ابوجہل کی طرف بڑھے اور پوچھنے لگے: اے ابو الحکم! تجھے کیا ہو گیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ میں جب پتھر اٹھا کے اُن کی طرف بڑھا تا کہ میں انھیں قتل کر دوں، تو اچانک ایک اونٹ میرے اور ان کے درمیان حائل ہو گیا، اللہ کی قسم! میں نے آج تک اتنا بڑا اونٹ نہیں دیکھا، نہ اس جیسی کسی اونٹ کی اتنی بڑی کچلیاں دیکھی ہیں۔ وہ اونٹ میری طرف بڑھ رہا تھا تاکہ مجھے اپنا نوالہ بنا لے، اس لیے میں پیچھے کی طرف بھاگ آیا۔
جب ابوجہل نے اپنی بات مکمل کر لی تو نضر بن حارث کھڑا ہو گیا،اس نے کہا:
[1] السیرۃ النبویۃ لا بن ہشام:1؍318۔