کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 230
دور کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تدبیروں اور سازشوں کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا وَللّٰهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ﴾ ’’وہ وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ تم ان پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ کے پاس ہیں، یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں، اور آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں، لیکن منافق سمجھتے نہیں۔‘‘ [1] یہ وہ اوامر ہیں جن کے ذریعے طبیعتوں کی خباثت اور کمینہ پن ظاہر ہوتا ہے، اور ہر زمانے کے شریر لوگ انھی اوامر کا سہارا لیتے آئے ہیں تا کہ ایمان والوں اور اللہ وحدہ لا شریک کی طرف دعوت دینے والوں کو تکلیف میں مبتلا کریں۔ اس لیے کہ منافقین سمجھتے ہیں کہ روٹی کا لقمہ ہی سب کچھ ہے۔ یہ نظریہ ان کی حس میں داخل ہوچکا ہے۔ اور یہی نظریہ مکہ کے مشرکین قریش کا بھی تھا۔ انھوں نے بنو ہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا اور ان کی ساتھ قطع تعلقی کا اعلان کردیا۔ تا کہ یہ لوگ بھوک اور تنگی کی و جہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد و نصرت کرنے سے رک جائیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے منتشر ہو جائیں۔ عصر حاضر میں کمیونزم رکھنے والوں کا بھی یہی طریقہ ہے کہ وہ مسلمانوں، دیندار لوگوں کو ان کے شہروں میں ’’راشن کارڈ‘‘ سے محروم رکھتے ہیں تا کہ یا تو وہ بھوکے مر جائیں یا اللہ تعالیٰ کا انکار کر دیں اور اس کی عبادت کرنا چھوڑ دیں۔
[1] المنافقون 63 :7۔