کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 23
عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا۔ جب فدیہ ادا ہو چکا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اس سے پوچھا گیا: تم فدیہ ادا ہونے سے پہلے مسلمان کیوں نہیں ہوئے جب کہ تم مسلمانوں کے پاس ہی تھے؟ اس نے جواب دیا: ’’ میں نے یہ کام اس لیے کیا تاکہ تم یہ نہ سمجھو کہ میں قید و بند سے گھبرا کر مسلمان ہوا ہوں۔‘‘ [1] سفیان ثوری رحمہ اللہ ولید بن مغیرہ کی جائیداد کا اندازہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ولید بن مغیرہ دس لاکھ (ایک ملین) دینار کا مالک تھا۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’یہ نو ہزار مثقال چاندی کا مالک تھا۔‘‘ اس مال و دولت کی کثرت نے اسے مغرور اور متکبر بنا دیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ﴿ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى ، أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى ﴾ ’’سچ مچ! انسان یقیناً آپے سے باہر ہو جاتا ہے، اس بنا پر کہ وہ خود کو بے پروا سمجھتا ہے۔‘‘ [2] یہ شخص بہت زیادہ فضول خرچ تھا۔ ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے اپنا مال اڑاتا تھا۔ اس نے منیٰ میں حاجیوں کے کھانے کے لیے آگ جلانے سے لوگوں کو منع کیا ہوا تھا تاکہ حاجیوں کو کھانا کھلانے میں اس کا کوئی ثانی نہ ہو لیکن اس میں اللہ کی رضا مقصود نہیں ہوتی تھی۔ اس شدید فضول خرچی اور اسراف کے باوجود بھی اپنا مال سود پر دیتا تھا۔ قبائل عرب میں سود خوری کے طور پر مشہور ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ بہت سارے وفود مکہ میں ولید
[1] الطبقات لا بن سعد:4؍132، والاستیعاب:4؍1558۔ [2] العلق 96 :6۔7۔