کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 229
جاتی ہیں جو لوگ اپنے باطن کو اللہ کے لیے خالص نہیں کرتے، ان کے لیے اپنے اعمال کی خرابی کو جاننا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں خیر و شر ، اصلاح اور فساد کا ترازو ذاتی خواہشات کی طرف جھکتا ہے اور وہ کسی قاعدہ ربانی کی طرف رجوع نہیں کرتے۔ میرے رب نے سچ فرمایا:
﴿ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ﴾
’’خبردار ہو جاؤ! یقیناً یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں، لیکن انھیں شعور نہیں۔‘‘ [1]
بعض لوگ کمینگی اور گھٹیا پن کو طاقت سمجھتے ہیں اور بری تدبیر کو اپنا کمال گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ان کی سوچ انتہائی حقیر اور گھٹیا پن پر دلالت کرتی ہے۔ قوی اور بہادر آدمی کمینہ، خبیث اور دھوکے باز نہیں ہوتا، نہ وہ کسی کے خلاف سازش کرنے والا، چغلی کرنے والا اور عیب لگانے والا ہوتا ہے، ان گھٹیا چیزوں کا سہارا وہی شخص لیتا ہے جس کا نفس ضعیف ہو، بدن لاغر اور ایمان کمزور ہو تو ایسا شخص ہی منافقت کاسہارا لیتا ہے۔
منافقین نے جو ہتھیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کمزور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیے تھے آج بھی سامراجی لوگ وہی ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ عریانی اور بے حیائی پھیلانا لوگوں کو فاقہ میں مبتلا کرنا اور اقتصادی محاصرہ کر کے کمزور قوموں کو اپنا غلام بنانا اور ان کے قدرتی وسائل چھیننا آج کے کافروں اور منافقوں کا بہت بڑا حربہ ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو منافقین والا کام انجام دے دیتے ہیں۔ ان کاموں سے منافقین کا ہدف اور مقصد نہایت واضح ہے۔ وہ مسلمانوں کی جمعیت کو توڑنا اور انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقے سے
[1] البقرۃ 2 :12۔