کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 228
یہ لوگ غزوۂ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مٹھی بھر ساتھیوں کو قریش اور اس کی اتحادی جماعتوں کے لشکر کے سامنے تنہا چھوڑ گئے۔ پھر بعد میں اپنی منافقت ظاہر کرتے ہوئے یہ بات کہنے لگے جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے:
﴿ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعْنَاكُمْ ﴾
’’ انھوں نے کہا: اگر ہم لڑائی (کا فن) جانتے ہوتے تو ضرور تمھارا ساتھ دیتے۔‘‘ [1]
منافقین کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ کسی طرح انصار و مہاجرین کے درمیان فتنہ کھڑا کر دیا جائے۔ اس لیے وہ وقتاً فوقتاً فریقین کے بعض افراد کو اسلحہ اٹھانے پر ابھارتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرتے تھے، طرح طرح کے الزام لگاتے تھے اور مسلمانوں کی عزت اچھالنے کی کوشش کرتے تھے اور جب بھی وحی الٰہی ان کو رسوا کرتی اور ان کی خبث باطن کو واضح کرتی تو یہ فوراً کہہ دیتے تھے:
﴿ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ﴾
’’ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔‘‘ [2]
ہر زمانے اور ہر شہر میں ہم ایسے بہت سے لوگوں کو پاتے ہیں جو ایسے دعوے کرتے ہیں اور جب ان کا راز فاش ہوجاتا ہے تو پھر کہنے لگتے ہیں کہ ہم تو مذاق کررہے تھے۔ کیونکہ ان کی نظر میں اخلاق و کردار اور بد کرداری میں کوئی فرق نہیں ہوتا اور جب اخلاص اور نفس کو پاکیزہ رکھنے کے ترازو بگڑ جائیں تو تمام ترازو اور قیمتیں خراب ہو جاتی
[1] آل عمران 3: 167۔
[2] التوبۃ 9 :65۔