کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 227
وہ حق کو نہیں دیکھ سکتا یا وہ انصاف پر راضی نہیں ہوتا۔
ایک مرض دوسرے کو جنم دیتا ہے اور انحراف یعنی اصل سے ہٹنا شروع میں تھوڑا ہوتا ہے پھر اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے سارے وجود میں سرایت کر جاتا ہے۔
منافقین کی صفات میں سے یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ بیوقوف اور بڑے بڑے دعوے کرنے کے عادی ہوتے ہیں، یقیناً یہ پہلے دن ہی سے مسخرہ پن کرتے رہے ہیں ، اچھا کردار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل لوگوں کا مذاق اڑانا، انھیں حقیر سمجھنا اور زمین پر فتنہ پھیلانا ان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ اس بات کے دعوے دار ہوتے ہیں کہ ہم تو لوگوں کی اصلاح کرنے والے ہیں۔ جہالت ان کی زندگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور ان کی عقلوں پر غالب آچکی ہوتی ہے جبکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تو بہت بڑے عالم ہیں۔ یہ کیچڑ اور گناہوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں جس سے دوسروں کی زندگی کو بھی آلودہ کرتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم ان کی زندگیوں کی اصلاح کرنے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘ [1]
کیا یہی ہے ان کی وہ اصلاح جس کی طرف یہ لوگ نسبت کرتے ہیں؟
[1] البقرۃ2: 11۔