کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 226
لوگوں کی ایذا رسانی اور ظلم و ستم کو خاطر میں لائیں اور نہ ان پر تو جہ دیں۔
ایمان والوں کے ساتھ دشمنی رکھنے والے بھی اس بات پر غور کریں اور اپنی منافقت سے توبہ کریں اور اس بات سے ڈریں اور اچھی طرح جان لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت پوری طرح مستحقِ عذاب ہوتے ہیں جب وہ مومنین سے جنگ کرتے ہیں۔
منافقین کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ان کے دل بیمار ہوتے ہیں۔ اور نہایت سخت بیماری ان کے دلوں پر مسلط ہو چکی ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اسے اس طرح سے تعبیر کیا ہے:
﴿ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ﴾
’’ان کے دلوں میں بیماری ہے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں بیماری میں مزید بڑھا دیا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے اس بنا پر کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔‘‘ [1]
دلوں کا مرض تمام امراض سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ یقیناً یہ وہ بیماری ہے جو افراد کے چال چلن میں پختہ ہو جاتی ہے جس کی و جہ سے دل سیدھے راستے سے پھر جاتے ہیں اور دل اور ہدایت کے درمیان دوری ہو جاتی ہے تو وہ گمراہ ہو جاتے ہیں اور خواہشات پر چلنے لگتے ہیں۔ منافق کی زندگی اندھیروں سے بھر جاتی ہے، پھر وہ روشنیوں کو دیکھنا بھی چاہے تو نہیں دیکھ سکتا کیونکہ وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ وہ اس سے جدا ہونے کی طاقت نہیں رکھتا، نہ اس طریقے سے دور ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی بصیرت زائل ہو چکی ہوتی ہے، پس
[1] البقرۃ 2 :10۔