کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 220
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا: ’’بنو عدی بن کعب کے سردار کو خوش آمدید جو فاروق کے لقب سے ملقب ہیں اور اللہ کے دین پر مضبوطی سے کار بند ہیں۔ اپنی جان و مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لٹانے والے ہیں۔‘‘ پھر اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد اور داماد کو خوش آمدید جو بنو ہاشم کے شہسوار ہیں۔‘‘ پھر وہ آگے بڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس آگیا اور ان سے کہنے لگا:
’’دیکھا! میں نے ان سے کیسا برتاؤ کیا! جب تم بھی انھیں دیکھو تو ایسا ہی برتاؤ کرو۔‘‘
اس کے ساتھیوں نے اس کی بہت تعریف کی۔[1]
مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی، تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ﴾
’’اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو ان سے صرف مذاق کرتے ہیں۔‘‘ [2]
وقت اجل آ پہنچا اور منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی فوت ہو گیا۔ اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول! مجھے اپنی قمیص عطا کریں تا کہ میں اپنے باپ کو اس قمیص میں کفن دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں اور اس کے لیے استغفار کر دیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص عطا فرما دی، پھر فرمایا:
[1] أسباب نزول القرآن للواحدي: 20۔
[2] سورۃ البقرۃ2: 14۔