کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 22
ولید بن مغیرہ کی یہ چند اچھی صفات تھیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ شخص مکارم اخلاق کو صرف اس لیے پسند کرتا تھا کہ اسے شہرت اور مقام حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے حد مال و دولت اور بہت سے بیٹوں سے نوازا تھا۔ بے بہا سونا چاندی، اونٹ گھوڑے اور انگوروں کے باغات کا مالک تھا۔ یہ شخص ایک کامیاب تاجر بھی تھا۔ ہر جانب سے اس کے پاس مال چلا آتا تھا۔ اس کے پاس بہت سے خادم، غلام اور لونڈیاں تھیں، اسی لیے اسے ’’ریحانۃ قریش‘‘ (گلدستۂ قریش) کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اس کے دس بیٹے تھے اور بعض نے بارہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ سارے کے سارے اس کے پاس حاضر ہوتے تھے اور کسی بھی کام یا تجارت سے پیچھے نہیں رہتے تھے۔[1]
ان میں سے ایک خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب عطا کیا تھا۔ انھی کے بارے میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’عورتیں خالد جیسا جوان پیدا کرنے سے عاجز آ گئی ہیں۔‘‘ [2]
ولید کے بیٹوں میں سے ایک ولید بن ولید بھی تھا جسے بدر کے دن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے قیدی بنا لیا تھا، اور اس کے دو بھائیوں خالد اور ہشام جو اس کی رہائی کے لیے آئے تھے ان سے چار ہزار درہم بطور فدیہ وصول کرکے اسے آزاد کر دیا تھا۔
یہ روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: ’’اس کے فدیے میں صرف اس کے باپ ولید کا اسلحہ لینا، اس کے علاوہ کوئی اور چیز قبول نہ کرنا۔‘‘ ولید کی ایک کشادہ اور کھلی زرہ اور ایک خوب چمکنے والی تلوار تھی۔ ان دونوں کی قیمت ایک سو دینار تھی۔ ولید کے بھائی اس بات پر رضا مند ہو گئے اور یہ اسلحہ سیدنا
[1] تفسیر الطبري:29؍ 153، تفسیر القرطبی:19؍ 72۔
[2] خالد بن الولید لصادق عرجون۔