کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 219
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا: ’’اسلام میں فحاشی و بدکاری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ [1]
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زانیہ کی کمائی کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’یہ خبیث اور بُری کمائی ہے۔‘‘ [2]
ابو صحیفہ فرماتے ہیں: ’’بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زانیہ کی کمائی لینے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ [3]
عبداللہ بن ابی نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے پیروکاروں کو یہ بھی تعلیم دیتا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں۔ وہ کہتاتھا کہ مسلمانوں کے سامنے خوبصورت گفتگو کر کے انھیں دھوکے میں رکھو۔
عبداللہ بن ابی کی منافقت کی ایک اور مثال سنیے:
ایک دن عبداللہ بن ابی اپنے منافقین رفقاء کی جماعت کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ ان کا سامنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے ہوا۔ عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ’’دیکھنا میں ان بیوقوفوں کو تم سے کیسے دور رکھتا ہوں اور انھیں کیسے بے وقوف بناتا ہوں۔‘‘
چنانچہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس گیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کے کہنے لگا: ’’صدیق کو خوش آمدید جو بنو تمیم کے سردار اور شیخ الاسلام ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غار کے ساتھی اور اپنی جان و مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کرنے والے ہیں۔‘‘ پھر اس نے
[1] سنن أبي داود، حدیث: 2264۔
[2] سنن النسائي، حدیث: 4299، وسنن أبي داود، حدیث: 3486۔
[3] مسند أحمد:1؍147، 235، 355، 120/4، 309۔