کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 218
3۔ مسلمانوں کی جماعت میں انصاری قبائل اوس و خزرج کے مابین فتنے کی آگ بھڑکانا۔
عبداللہ بن ابی اپنے دل میں موجود کینہ و بغض کی و جہ سے اندر ہی اندر کھولتا رہتا تھا اور اس چیز نے اس کے دل کو اُس عظمت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہستی کی دشمنی سے بھر دیا تھا جس نے اس کے خیال کے مطابق اسے بادشاہی اور تاج پوشی سے محروم کر دیا تھا۔
عبداللہ بن ابی کی ایک لونڈی کا نام ’’معاذہ‘‘ تھا، اس نے اسلام قبول کر لیا اور برے کام سے توبہ کر لی۔ عبداللہ بن ابی نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور عبداللہ بن ابی کی شکایت کی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اس لونڈی کو اپنے قبضے میں کر لیں۔ اس اقدام سے عبداللہ بن ابی چیخ اٹھا، کہنے لگا: ’’ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کون انصاف دلائے گا جنھوں نے ہم سے ہمارے غلاموں کو بھی چھیننا شروع کر دیا ہے۔‘‘ [1]
تب اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی:
﴿ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللّٰهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾
’’ تمھاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انھیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو اور جو کوئی انھیں مجبور کر دے تو اللہ تعالیٰ ان پر جبر کے بعد بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ [2]
[1] تفسیر سورۃ النور، مفسر ابو الأعلی مودودی۔
[2] النور24 :33۔