کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 217
خلاف غلط باتیں کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں اپنے اہل و عیال کے متعلق صرف خیر اور بھلائی ہی جانتا ہوں۔ اور یہ لوگ اس شخص کے متعلق اس طرح کی باتیں کہہ رہے ہیں جس کی نیکی اور تقویٰ کو میں جانتا ہوں۔ اور وہ میرے گھروں میں سے کسی گھر میں داخل نہیں ہوا مگر وہ میرے ساتھ رہتا تھا۔‘‘ [1] جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تو سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر وہ لوگ قبیلہ اوس میں سے ہیں تو ہم انھیں روکیں۔ اور اگر وہ ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہیں تو آپ ہمیں ان کے متعلق حکم دیں۔ اللہ کی قسم! یہ لوگ تو اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں۔ اسی وقت ایک اور شخص کھڑا ہو گیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: آپ صحیح نہیں کہہ رہے، ایسا نہ کہیں، اللہ کی قسم! تم نے یہ بات صرف اس لیے کہی ہے کہ تمھیں علم ہے کہ وہ لوگ قبیلہ خزرج سے ہیں۔ اگر وہ تمھاری قوم کے لوگ ہوتے تو تم یہ بات نہ کرتے۔ ان کے جواب میں سیدنا اسید رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! تم غلط کہہ رہے ہو۔ تم منافق ہو جو منافقین کا دفاع کر رہے ہو۔ ان دونوں کی گفتگو سے (ان کے قبیلے کے) لوگ جوش میں آ گئے۔ قریب تھا کہ اوس و خزرج کے ان دونوں قبائل کے درمیان دشمنی کی دیوار پھر کھڑی ہوجاتی۔[2] عبداللہ بن أبی واقعہ افک کو پھیلا کر یہ اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عزت کو داغدار کرنا۔ 2۔ اسلامی ریاست میں اخلاقیات کو تباہ کرنا۔
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍345۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍345۔