کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 216
میں قریش نے دس ہزار سے زیادہ جنگجو جوان میدان میں اتارے۔ لیکن انھیں کچھ بھی فائدہ نہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے ان کی ہر قسم کی چال کو انھیں پر اُلٹ دیا اور قریش شرمندہ ہو کر واپس گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ اعلان کرا دیا کہ ’’اس سال کے بعد قریش تم پر کبھی حملہ آور نہیں ہو سکیں گے بلکہ اب تم ان پر حملہ کرو گے۔‘‘ [1]
اس وقت منافقین کو یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی جماعت اب کسی بھی میدان میں قریش کے مقابلے میں شکست نہیں کھا سکے گی۔
چنانچہ منافقین نے ایک دوسرا محاذ کھول لیا اور مسلمانوں کے خلاف سر گرم ہوگئے۔ وہ یہ محاذ تھا کہ مسلمانوں میں ایسی باطل اور بے بنیاد خبریں پھیلا دی جائیں جن سے ان کی صفوں میں انتشار پیدا ہو جائے، چنانچہ منافقین کی پہلی چال ان کا یہ قول تھا کہ (نعوذ باللہ) جس وقت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)نے اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو دیکھا تو اس پر فریفتہ ہو گئے۔ اور جب اس کے منہ بولے بیٹے (زید رضی اللہ عنہ ) کو اس بات کا علم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی بیوی سے عشق ہو گیا ہے تو اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے اپنے بیٹے کی منکوحہ سے شادی کر لی۔ (نعوذ باللّٰہ من ذلک) [2]
منافقین کا دوسرا بڑا حملہ ’’واقعہ افک‘‘ہے۔ پانچ ہجری میں غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر انھوں نے اسے خوب پھیلایا۔ عبداللہ بن ابی وہ پہلا شخص تھا جس نے افک کے واقعہ کو بہت زیادہ اچھالا، اسے خوب ہوا دی اور جگہ جگہ اس فتنے کو پھیلاتا رہا۔ یہی وہ شخص ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شدید ذہنی کرب کا باعث بنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ مجھے میرے اہل کے بارے میں اذیت پہنچاتے اور ان کے
[1] تفسیر ابن کثیر:3؍497، ومسند أحمد:4؍262۔
[2] تفسیر ابن کثیر، سورۃ الأحزاب 38:33۔