کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 215
اللہ تعالیٰ نے ان یہودیوں کے دلوں پر رعب طاری کر دیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا خون نہ بہائیں، ہمیں جلا وطن کر دیں اور ہمیں ہتھیاروں کے علاوہ ایک اونٹ کے بوجھ کے بقدر سامان اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست منظور فرما لی۔
قرآن کریم نے اس قصہ کی منظر کشی کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللّٰهِ فَأَتَاهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ﴾
’’وہی ہے جس نے اہل کتاب میں کافروں کو ان کے گھروں سے پہلی جلا وطنی کے وقت نکالا، تمھارا گمان بھی نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے قلعے انھیں اللہ سے بچا لیں گے۔ پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آ پڑا کہ انھیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے رعب ڈال دیا، وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں برباد کرا رہے تھے، پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔‘‘ [1]
کفر اور اس کے لشکر، نفاق اور منافقین کی جماعت کو شکست فاش ہو گئی۔ مسلمان اسی طرح فتح یاب ہوتے رہے یہاں تک کہ غزوۂ خندق رونماہو گیا۔ یہ ایسا غزوہ تھا کہ اس
[1] الحشر 59 :2۔