کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 213
جب وہ مدینہ میں داخل ہورہے تھے تو اچانک مسلمانوں نے دیکھا کہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رضی اللہ عنہ مدینہ کے دروازے پر تلوار سونتے کھڑے ہیں۔ لوگ ان کے پاس سے گزرتے چلے جا رہے تھے۔ جب عبداللہ بن ابی مدینہ میں داخل ہونے لگا تو اس کے بیٹے نے کہا: ’’پیچھے ہٹ جاؤ۔‘‘ عبداللہ بن ابی نے پوچھا: ’’کیوں؟ تیرے لیے ہلاکت ہو۔‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’اللہ کی قسم! جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں تم یہاں سے نہیں گزر سکتے۔ بلاشبہ وہ عزت والے ہیں اور تم ذلیل ہو۔‘‘ [1] جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے ساتھ چلتے ہوئے وہاں تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے کی شکایت کی۔ عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! جب تک آپ اجازت نہ دیں یہ مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی۔ بیٹے نے کہا: ’’اب تم یہاں سے گزر سکتے ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں اجازت دے دی ہے۔‘‘ [2] قرآنِ کریم عبداللہ بن ابی اور اس کے رفقاء کے احوال کی منظر کشی کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ یہ کفار کے بھائی ہیں۔ یہودیوں نے اپنی کتاب تورات کو چھوڑ دیا اور اس پر عمل کرنے کی بجائے اس کے کلمات میں رد و بدل کر دیا۔ انھوں نے اللہ کی کتاب
[1] أسباب نزول القرآن للواحدي، ص: 461۔ [2] اسے امام ابن کثیر نے محمد بن اسحاق بن یسار کے واسطے سے روایت کیا ہے: 4؍495 اور سفیان بن عیینہ نے ابو ہارون المدنی سے روایت کیا ہے: 6؍226۔