کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 212
میں اپنے باپ عبداللہ بن ابی کے قاتل کو سر عام چلتا پھرتا دیکھوں اور طیش میں آ کر اسے قتل کر دوں۔ (اگر ایسا ہوا) تو میں ایک مومن کو کافر کے بدلے میں قتل کر بیٹھوں گا اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں چلا جاؤں گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک وہ ہمارے ساتھ رہے گا ہم اس سے نرمی اور احسان ہی کا برتاؤ کریں گے۔‘‘ [1]
اس واقعے کے بعد جب بھی عبداللہ بن ابی کوئی شوشہ چھوڑتا تو اس کی اپنی قوم کے افراد ہی اس کی سرزنش کرتے، اسے پکڑتے اور اس پر سختی کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے عمر! تمھارا کیا خیال ہے؟ اللہ کی قسم! اگر میں عبداللہ بن ابی کو اسی دن قتل کر دیتا جس دن تم نے مجھ سے کہا تھا تو میں ایک ہزار لوگوں کو اپنا مخالف بنا لیتا لیکن آج اگر میں انھیں حکم دوں کہ وہ اسے قتل کر دیں تو وہ ضرور ایسا کر گزریں گے۔‘‘ [2]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم میری بات سے زیادہ بابرکت ہے۔‘‘
اے اہل اسلام! بتاؤ کہ کیا یہ معاملہ یہیں تک محدود رہا؟
اللہ کی قسم! نہیں، بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے اسلام کے مدرسہ سے تربیت حاصل کی تھی وہ قطعاً یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے رہنما کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔ سب لوگ مدینہ لوٹ آئے اور ان میں سے ہر ایک عبداللہ بن ابی کی کہی ہوئی بات کی و جہ سے شدید غصے سے بھرا ہوا تھا۔
[1] أسباب نزول القرآن للواحدي: 460، وتفسیر ابن کثیر: 395/4۔
[2] تفسیر ابن کثیر:4؍395۔