کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 211
اسید رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر آپ چاہیں تو آپ ہی اسے وہاں سے نکالیں گے۔ اللہ کی قسم! وہ ہی ذلیل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے ہیں۔‘‘ پھر سیدنا اسید رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ اے اللہ کے رسول! اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیجیے۔ اللہ کی قسم! اس کی قوم نے اس کے لیے نگینوں سے جڑا ہوا ایک تاج تیار کیا تھا تاکہ وہ اس کے سر پر رکھ کر اسے اپنا حکمران بنا لیں۔ تب اللہ تعالیٰ آپ کو یہاں لے آیا تو اس کی بادشاہت کا امکان ختم ہوکر رہ گیا۔ اب اس کا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کی حکمرانی اور سرداری چھینی ہے۔ ‘‘[1] چنانچہ وہ سورۃ جس میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا ذکر فرمایا ہے، وہ عبداللہ بن ابی اور اس جیسے دوسرے لوگوں کے بارے ہی میں نازل ہوئی۔ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو کان سے پکڑا اور فرمایا: ’’یہ وہ شخص ہے جس کی سنی ہوئی بات کو اللہ نے سچ ثابت کر دیا۔‘‘ [2] جب سیدنا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رضی اللہ عنہ کو اپنے باپ کی کہی ہوئی بات کا علم ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’اے اللہ کے رسول! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ جو اذیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے باپ عبداللہ بن ابی کی طرف سے پہنچی ہے اس کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حکم کیجیے، میں اس کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت لے آؤں گا۔ اللہ کی قسم! پورا خزرج قبیلہ جانتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کوئی بیٹا اپنے والد پر مہربان نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کو حکم دیں اور وہ اسے قتل کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا معاملہ نہ کریں کہ
[1] ظلال القرآن لسید قطب:28؍110، أسباب نزول القرآن للواحدي، ص: 460۔ [2] صحیح البخاري، حدیث: 4906، والدر المنثور:6؍222۔