کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 21
نے کعبہ کے پتھروں میں سے ایک پتھر اٹھایا تو پتھر خود بخود اس کے ہاتھوں سے نکل کر اپنی جگہ واپس پہنچ گیا۔[1]
یہ واقعہ دیکھ کر لوگ ڈر گئے اور بیت اللہ کو گرانے کا ارادہ ترک کر دیا اور اس بارے میں رجوع کرنے کے لیے غور و فکر شروع کر دیا۔ اتنے میں ولید بن مغیرہ نے کہا: اس کام کی ابتدا میں کرتا ہوں۔ اس نے کدال لی اور یہ کلمات کہتے ہوئے ماری: ’’اے اللہ! تو معاف کرنا۔ میرا صرف خیر کا ارادہ ہے۔‘‘ [2]
ولید کی اس چوٹ مارنے سے بیت اللہ کا کچھ حصہ ٹوٹ گیا۔ لیکن لوگ ابھی تک خوفزدہ تھے۔ انھوں نے کہا: آج رات ہم دیکھتے ہیں اگر ولید کو کچھ ہو گیا تو ہم بیت اللہ کو نہیں گرائیں گے۔ صبح ہوئی تو ولید صحیح سالم تھا، اسے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ پھر سے اپنے کام کی طرف گیا اور بیت اللہ کو گرانا شروع کر دیا حتی کہ بنیادوں تک گرا ڈالا۔
پھر وہ سبز پتھروں کی طرف بڑھے۔ یہ پتھر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ ایک شخص نے دو پتھروں کے درمیان آرا ڈال کر انھیں الگ کرنا چاہا ،جونہی پتھر نے حرکت کی تو پورا مکہ زلزلے سے لرزاٹھا۔[3] یہ دیکھ کر وہ رک گئے۔
جب لوگ کعبۃ اللہ کی تعمیر کے لیے پتھر جمع کرنے لگے تو ولید نے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:
’’اے قریش کی جماعت! بیت اللہ کی تعمیر کے لیے اپنا پاکیزہ مال ہی خرچ کرنا، اس میں زنا، بدکاری اور ڈکیتی کا پیسہ نہ لگانا۔‘‘ [4]
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍210، والروض الأنف:2؍260۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1؍212، والروض الأنف:2؍261۔
[3] الکامل لا بن الأثیر:2؍29۔
[4] البدایۃ والنھایۃ:2؍30۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ باتیں ابو وہب بن عمر نے کہی تھیں۔