کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 205
اسے ایک انصاری ملا تواس نے پوچھا:کیا ہوا؟ کیوں چلا رہے ہو؟ وہ کہنے لگا:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی مجھ پر جھپٹ پڑے، مجھے میرے کپڑوں سے گھسیٹ کر زبردستی بٹھادیا اور میرے ساتھ سختی سے پیش آئے،جیسے میں کوئی بری بات کہہ رہا تھا ،میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و حمایت ہی میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اللہ کی قسم! مجھے اپنے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔[1] وہ اسی ڈھٹائی اور بے حیائی سے بڑ بڑاتا ہوا مسجد سے نکل گیا اور اس نے نور کو اپنے دل میں بسانے سے انکار کردیا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو نضیر کے پاس بنو عامر کے دو آدمیوں کی دیت کے سلسلے میں تعاون کے لیے تشریف لے گئے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں پہنچے تو انھوں نے کہا: ابو القاسم!آپ جیسے چاہیں گے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعاون کریں گے۔[2] وہ جب اکھٹے ہوئے تو آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ آج موقع ہے ،اس شخص کو ختم کرنے کے لیے اس سے بہتر موقع کبھی نہیں ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھروں کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ بالآخر وہ لوگ اس مشورے تک پہنچے کہ کون ہے جو اس گھر کی چھت پر چڑھے اور اس پر بڑا سا پتھر گرا کراس کا کام تمام کر دے اور ہمیں مستقل راحت دے۔ اس کام کے لیے عمرو بن جحاش بن کعب نے ہامی بھر لی اور کہا کہ یہ کام میں کروں گا۔ وہ آپ پر پتھر گرانے کے لیے اوپر چڑھا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو ان کے ارادوں کی خبر بھیج دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً کھڑے ہوگئے اور مدینہ لوٹ آئے۔
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍57، والبدایۃ والنھایۃ:4؍52۔ [2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍191۔