کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 204
ٹکڑیوں میں بدل دیا جائے بالخصوص جس وقت اسے اتحاد و یگانگت اور مضبوطی کی ضرورت ہو۔
منافقت اپنے وجود کا بول بول کر اعلان کرتی ہے اور اپنا سر بار بار اٹھاتی ہے لیکن بالآخر ہلاکت اور رسوائی کے علاوہ اس کا اور کوئی انجام نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی نے ان کے گمان کو خاکستر اور ان کے مکر کوتباہ کردیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی جمعے کے دن لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے منبر پر تشریف لاتے تو عبداللہ بن ابی کھڑا ہوجاتا اور کہتا:اے لوگو!یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالی نے تمھیں ان کی بدولت اکرام و اعزاز بخشا ہے ان کی مدد کرو، ان کی باتیں غور سے سنو اور ان کی اطاعت کرو۔[1]
وہ اسی قسم کی باتیں کرکے بیٹھ جاتا تھا۔ لیکن احد کے دن اس نے جس غداری اور منافقت کا ثبوت دیا، وہ سب پر عیاں ہو گیا تھا۔
جنگ احد سے واپسی پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور جمعے کا خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو عبداللہ بن ابی پھر کھڑا ہوگیا اور وہی رسمی باتیں دہرانے لگا جو پہلے کیا کرتا تھا ، لیکن اب مسلمانوں نے اسے اس کے کپڑوں سے گھسیٹ کرزبردستی بٹھا دیا اور کہا:اے اللہ کے دشمن !بیٹھ جا، تُو جو باتیں کرتا ہے تُو ان کا اہل نہیں، تو نے جو کرتوت کیے ہیں وہ تمام لوگوں نے دیکھ لیے ہیں۔
وہ غصے سے لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر یہ کہتا ہوا باہر نکل گیا:کیا میں کوئی شر والی بات کہہ رہا تھا؟ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید اور حمایت ہی کر رہا تھا۔دروازے کے پاس
[1] السیرۃ لابن ہشام:3؍57۔