کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 203
وہ کہنے لگا :اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تمھیں لڑنا آتاہے تو کبھی نہ لوٹتے۔ [1]
مسلمانوں کی صفوں کی طرف اٹھتے ہوئے خطرات اور ان کے نتائج کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس خواب کے ذریعے علم ہوچکا تھا جس کی تاویل کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: میرے خاندان کے کسی فرد کی شہادت ہوگی اور بعض صحابہ بھی جام شہادت نوش کر جائیں گے، پھر ہم مدینہ کو اپنے لیے مضبوط حصار پائیں گے۔ اس خواب کی سچائی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا اور پیش آمدہ خطرات کا اندازہ بھی ہوچکا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حق رکھتے تھے کہ شوریٰ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوریٰ ہی کے فیصلے کو تسلیم کر لیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعض نقصانات اور تکلیف دہ پہلوؤں سے کچھ نہ کچھ واقف تھے،کیونکہ امت کی تربیت اور جماعت کی تعلیم میں کچھ کمی تھی جو بہرحال ایک عارضی خسارہ تھا، لیکن جو کچھ عبدللہ بن ا بی نے کیا وہ تو اسلامی صفوں کو منہدم کرنے، متبعین میں اختلاف و افتراق کو ہوا دینے اور مسلمانوں کو ہزیمت سے دو چار کرنے کی سازش تھی اور خدشہ تھا کہ اس سازش سے اسلامی جمعیت دھڑوں میں بٹ جاتی۔
یہ اس کی اپنی رائے تھی جو جماعت کی رائے کے خلاف تھی تو ظاہر سی بات ہے کہ ایک شخص کے مقابلے میں جماعت کی بات کو ترجیح ہونی ہے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو ……۔
کسی رائے کے غلط ہونے کے نتیجے میں خسارے سے دوچار ہوجانا اس فتنے کے مقابلے میں بے حد چھوٹاہے کہ امت محمدی کو فرقوں میں بانٹ دیا جائے اور اسلامی لشکر کو
[1] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍7۔