کتاب: رجال القرآن 7 - صفحہ 202
بڑا برا انتظار کرنا پڑے گا،اگر وہ داخل ہوں گے تو مرد ان کے آمنے سامنے اور بچے اور خواتین چھتوں سے ان پر پتھر برسائیں گے، اور اگر وہ لوٹ گئے تو اسی طرح ذلیل و خوار ہوکر لوٹ جائیں گے جس طرح آئے تھے۔[1]
بعض ایسے مسلمان جن پر قریش کے خلاف لڑنے کا جنون سوار تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصرار کرتے رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے، اسلحہ زیب تن فرمایا اور باہر تشریف لائے۔جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلحہ پہنے ہوئے دیکھا تو بڑے نادم ہوئے، کہنے لگے:ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبور کیا ہے، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، بھلا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے مشورہ دے سکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو وحی نازل ہوتی ہے !
پھر سب جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی کر لیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی نبی کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ جنگی لباس پہن لے اور پھر اللہ کے دشمنوں سے لڑائی کیے بغیر اتار دے۔ [2]
بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار ساتھیوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے نکل پڑے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شو ط (مدینہ اور احد کے درمیان ایک )مقام پر پہنچے توعبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو ساتھ لے کر یہ کہتا ہوا علیحدہ ہوگیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اورمیرے مقابلے میں چند نوجوانوں کی بات کو ترجیح دی ہے۔
عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے گئے، اسے ڈانٹا اور لوٹنے کی ترغیب دلائی اور یہ بھی کہا: آؤ ہمارے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کرو ورنہ یہاں سے دفع ہوجاؤ۔
[1] الروض الأنف:3؍243۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:3؍7۔